عہدِ مغلیہ میں چکوال کیسا تھا؟

عہد ِ مغلیہ میں چکوال کیسا تھا؟

                 علی خان

 
            چکوال کے علاقے پر مختلف ادوار میں مغلوں کی عملداری قریباً 275سال تک رہی۔ برصغیر میں مغلیہ عہد حکومت 1526ءسے 1851ءتک رہا اس دوران سوری خاندان اور سکھ بھی تقریباً 55سال تک اقتدار سنبھالے رہے۔

 
مغلوں کی چکول آمد

                  مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر(متوفی1530ء) کی چکوال آمد کا پہلا تذکرہ اُن کی سوانح عمری”تزکِ بابری“ میں ملتا ہے جس کے مطابق وہ 1519ءمیں بھیرہ سے یہاں آئے۔ بابر سے قبل تیموریہ خاندان جو بعد میں مغلیہ خاندان کہلایا کے جد امجد امیر تیمور بھی 1398ء یا 1399ءکے سالوں میں اس علاقے کے گردو نواح پرحملہ آور ہوا مگر اس علاقے میں کوہ جودہ کے رائے اور سردار اسی کی خدمت میں پیش کش لے کر حاضر ہوئے اور یہ علاقہ تباہی سے بچ گیا۔

                   تیمور کے جانے کے قریب 125سال بعد تزک بابری(1519ءبمطابق915ہجری) میں کوہ جودہ اور ملحقہ علاقہ(کلرکہار اور چھنبی) کا ذکر ملتا ہے۔ بابر اٹک سے براستہ سرائے کھولا اور ڈھلہ کے  کلرکہار پہنچا اور یہاں چھ ماہ قیام کیا۔ گویاکلر کہار چھ ماہ تک مغلیہ سلطنت کا عارضی پایہ تخت رہا۔ بابرنے اپنی تزک میں یہاں آمد کا ذکر  یوں کیا ہے۔

         ” بھیرہ سے کوس شمال کی طرف ایک پہاڑ ہے اس کو ظفر نامہ وغیرہ اور تاریخی کتابوں میں کوہ جودہ لکھا گیا ہے۔ بھیرہ سے چلے اور ظہر کے وقت کلدہ کنار (کلرکہار) میں اترے۔ یہاں چاروں طرف گیہوں کے کھیت ہی کھیت تھے یہ مقام قابل دید ہے۔ بھیرے سے دس کوس کے فاصلے پر پہاڑ میں ایک ہموار قطعہ ہے اُس میدان میں ایک صاف جگہ پر بڑا تالاب ہے۔ یہاں بارش اور پہاڑ کا پانی جمع ہوتا ہے اس تالاب کا گھیراہ تین کوس ہے۔مرغزار کے شمال میں ایک ندی ہے اور اس کے مغرب میں دامن کوہ ہے اس میں ایک چشمہ ہے اس چشمہ کا پانی ان بلندیوں پر جو تالاب ہے کے اوپر پڑا رہتا ہے چونکہ جگہ عمدہ تھی اس لیے میں نے یہاں ایک باغ تیار کرایا اور اس کا نام ”باغ صفا“ رکھا۔ یہ باغ صاف اور ہوا دار جگہ پر ہے“۔

          ان واقعات کو درج کرنے کے بعد بابر نے اپنی تزک میں وعدہ کیا کہ وہ باغِ صفا کے متعلق مزید حالات پھر بتائے گا مگر بابر اپنا وعدہ ایفا نہ کر سکا۔(بحوالہ دھنی ادب و ثقافت،پوٹھوہارنامہ) بابر کی یہاں آبد بارے مقامی زبان میں ایک کہاوت بھی مشہور ہے۔”چڑھیا بابر بادشاہ کہار تنبو تانے“ ”بھیں تے غرقا کسی دونوں نال آئے“۔

       باغ صفا

          بابر نے کلر کہار میں قیام کے دوران یہاں ایک باغ لگانے کا حکم دیا۔ جس کا نام اس نے باغ صفا رکھا۔ اس باغ کو برصغیر میں مغلوں کا پہلا باغ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ بعض محققین آگرہ کے آرام باغ کو مغلوں کا پہلا باغ قرار دیتے ہیں مگر اس باغ کی تعمیر1519ءمیں ہوئی اور شاید اُس وقت تک مغلوں کی آگرہ پر گرفت مضبوط نہ تھی چنانچہ قیاس ہے کہ مغلوں کا پہلا باغ”باغ صفا“ ہی ہے۔
 مقامی روایات کے مطابق اس علاقے کے لوگوں نے باغ صفا کے لگانے میں محنت، لگن اور خوش اسلوبی سے کام کیا جس سے بابر نہایت خوش ہوا، اور کچھ ایسے الفاظ ادا کیے”دھن ہیں یہ لوگ“ چنانچہ اسی مناسبت سے علاقے کا نام دھن پڑ گیا۔

 پہلے پہل باغ صفا220مربع گز کے رقبے پر لگایا گیا تھا۔ اس میں پھلدار اور پھولدار پودے لگائے گئے۔ یہاخ کے گلاب خاص طور پر معروف تھے جس سے عرق گلاب اور عطر گلاب تیار کیا جاتا تھا۔ بابر کا لگایا گیا یہ قدیم باغ اب ضلع کونسل چکوال کی تحویل میں ہے اور تقریباً چودہ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔1860ءکے بندوبست اراضی کے کاغذات میں اس کا اندراج”سرکاری باغ“ کے نام سے ہے۔ قدیم زمانے کے درختوں میں محض سرو کا ایک درخت باقی رہ گیا ہے باقی تمام شجر کاری جدید ہے ۔پھل دار درختوں میں لوکاٹ، خوبانی، آلوچے، انار، کیلا وغیرہ پائے جاتے ہیں۔باغ صفا میں موروں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے جو آزادانہ گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ مسٹر ٹابعٹ کی بندوبست رپورٹ 1901ءمیں لکھا ہے کہ باغ صفا کلرکہار کی دیکھ بھال موضع بھون کے گڈ ہوک خاندان کے مورث ِ اعلیٰ کالک داس کو مغل شہنشاہ ہمایوں( متوفی1556ئ) نے ایک شاہی سند محررہ950ھ/ 1554ءدے رکھی تھی اس انس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کہون کے انتظام ترقی کے سلسلہ میں تیس ہزار سکہ بطور انعام بھی دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان تک باغ صفا کی دیکھ بھال گڈ ھوک خاندان کے ذمہ رہی تھی۔

         تخت ِ بابری

           تخت بابری کی تعمیر 1526ء ۔1519ءکے دوران ہوئی۔ بابر نے اپنے چھ ماہ کے قیام کے دوران جس مقام پر دربار لگایا اور فامین جاری کیے وہ اب تخت بابری کہلاتی ہے اسی دربار میں ظہیر الدین بابر نے علاقہ پوٹھوہار میں واقع گکھڑوں کے مشہور قلعہ پر پھر واپس حملے اور دھن ملو کی کی آبادکاری کا منصوبہ بنایا تھا۔ 

        تخت ِ بابری ڈل پتھر کی بنی وزنی چٹان کے اوپر والے حصے کو کاٹ اور چھیل کر بنایا گیا ہے۔ اس کے اوپر والے حصے پر باقاعدہ نشست گاہ ہے اور تقریباً ڈیڑھ فٹ بلندی کی حامل 13سیڑھیاں چڑھ کر اس پر پہنچا جاتا ہے۔ بابر اور دیگر بادشاہوں نے بھی اسی نوعیت کے تخت بنوائے ہیں۔ اسے اُس وقت خوب سجایا جاتا تھا۔

       ایک دوسری روایت کے مطابق یہ تخت جنجوعہ سردار ملک ہست خان نے اپنے لیے بنوایا تھا۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اکتوبر1997ءمیں تخت بابری پر خطاب کیا تھا۔
تزک بابری میں کلرکہار جھیل ، گندھک کا چشمہ، ندی اور کوہ ہما کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جھیل کا رقبہ اُس کے تین میل کے رقبے میں پھیلا ہوا تھاجو عموماً بارش اور پہاڑوں کے پانی سے بھرا رہتا تھا۔جس چشمے کا ذکر کیا تھا اُس میں اب گندھک کے چشموں کا پانی بھی مل گیا ہے اور یہی چشمہ باغ اور ملحقہ اراضی کو اب بھی سیراب کر رہا ہے۔ظہیر الدین بابر نے جس ندی کا ذکر اپنی تزک میں کیا ہے یہ کلرکہار کے شمال مشرق میں کچھ فاصلے پر گذر رہی ہے اس کا پانی تھوڑا بہت سارا سال جاری رہتا ہے اس ندی کا سرچشمہ موجودہ عہد میں بابا فرید کا چولہہ کہلاتا ہے۔بابر نے کلرکہار کے موروں یا دیگر جانوروں کا ذکر نہیں کیا ماسوائے ایک گینڈے کے شکار کا حوالہ دیا ہے۔بابر نے خیرپور کے نواح میں واقع کوہ ہما کو کٹوا کر اس کا نام علی الہند بھی رکھا تا۔ قلعہ سمر قند سے ظہیر الدین بابر کے تعلق کا بھی روایات میں ذکر ہے مگر اس کے ٹھوس حوالے موجود نہیں ہیں۔

    عہد بابری میں علاقہ دھن کی آباد کاری اور تقسیم

            غیر مصدقہ روایات کے مطابق کوہستان نمک کے شمال میں آباد موجودہ علاقے دھن سے جب بابر کا گذر ہوا تو اس وقت یہ زیر آب ڈل کی شکل میں تھاا ور اس سے پانی کے گذرنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔کلرکہار قیام کے دوران بابر کا خیمہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا جب اُسکی نظر اس پانی پر پڑی تو اس نے مصاحبوں سے پوچھا کہ کیا اس پانی کے گزرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟ اس نے علاقے کے نامور آدمی کو بلانے کا بھی حکم دیا۔مقامی لوگوں نے ملوٹ کے بابا کالیداس کا نام لیا جو عالم فاضل تھا۔ بادشاہ نے کالیداس کو ڈل خشک کرنے کا کام سونپا اور خود کابل لوٹ گیا۔

          کالی داس نے ملو کے ہمراہ علاقے کا جائزہ لیا اور کوہ جود کے مشرق میں کرنگلی پہاڑکے پاس پانی کے اخراج کی جگہ تجویز کی۔ علاقے کے لوگوں کو پہاڑ کھودنے پر لگا دیا گیا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد پانی دریائے جہلم میں گرنے لگا۔ اس درہ کا نام گھوڑی گالا رکھا گیا یعنی گھوڑی گذرنے کا راسہ چنانچہ ابھی تک پہاڑ کھودنے کے نشانات موجود ہیں۔

           اس عمل کے بعد بابا کا لی داس نے جھنگڑ، کہون اور ونہار وغیرہ کے علاقوں سے ہر موضع میں سے دو تین گھروں کو لا کر یہاں آباد کیا۔خشکی کے اس حصے پر 84گاﺅں آباد کیے گئے جن میں مختلف اقوام آباد تھیں۔ بابر کابل سے لوٹا تو کالیداس نے کار گزاری پیش کی جس پر بابر نے خوش ہو کر اُسے خلعت خاص، گھوڑا اور نقد انعام دیا۔ بابر نے کالی داس کو سات دھنی کے گاﺅں ، موہڑہ شیخاں، رام شینہ، رتہ، رہنہ، بھٹی، جبیرپور اور منوال بھی بطورجاگیر عطا کیے۔ بابر نے بابا کالی داس کی درخواست پر علاقہ دھن کے مالیہ سے دو فی صد رائے کالی داس اور اُسکے متعقلین کو بطور رسوم دائمی بھی مقرر کر دیا جو انگریزی عہد تک جاری رہا۔

         بابا کالیداس ملوٹ سے ترک سکونت کر کے کلر کہار آ گئے تھے اور کلر کہار ہی دفن ہیں کالی دا س کی سمادھی(مڑھی) اب بھی موجود ہے۔ بابا کالی داس نے ہی دھن کو چودہ مختلف علاقوں میں تقسیم کیا تھا جن کے نام ملک دھن، تھرچک، دھراب، بیل غازی، ٹاری، رندوٹ، ملوٹ، نڑالی، طویلہ سارنگ، دروازہ کہاسون سکیسر، کنٹ، کہون، کسک اور ونہار ہیں۔ واضح رہے کہ ان روایات کے مستند تاریخی حوالے یا اسناد موجود نہیں ہیں۔

چکوال ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب کے عہد میں

          بابر کی وفات1530ءکے بعد ہمایوں تخت نشین ہوا تو وہ ایک مرتبہ یہاں چند روز کے لیے آیا اور تخت بابری پر اپنا دربار سجایا۔ 1539ءسے 1555ءتک ہندوستان کی حکومت سوری خاندان کے پاس رہی۔ اس دوران علاقہ دھن میں مقامی حاکموں کے ظلم سے ویرانی ہونے لگی۔ ہمایوں کے دوبارہ تخت نشینی1555ءکے بعد اُس نے بابا کا لیداس کے بڑے بیٹے رائے بھگوتی داس کے نام حکم جاری کیا کہ وہ حسب سابق علاقہ کی آبادی کرے ہمایوں نے نہ صرف سابقہ مراعات بحال کر دیں بلکہ تیس ہزار تنکہ بطور خلعت بھی دیا۔

             جلال الدین اکبر کے عہد میں ضلع چکوال کے اس علاقے کو سندھ ساگر کا حصہ گردانا جاتا تھا۔اس دور میں1562ءکی ایک سند کےھ مطابق کالی داس کی اولاد کو بھیرہ اور نیلاب کی خدمت سپرد کی گئی تھی۔ اس علاقاے سے مراد جہلم اور سندھ، اٹک کے درمیان ایک غیر مخصوص اور غیر متعین علاقہ ہے۔ دو سال بعد اکبر ہی کے عہد میں بیس سال پہلے شیر شاہ سوری کی بغاوت کے دوران نقصانات کا معاوضہ دینے کے لیے کالی داس کے بیٹے نرائن داس کو پندرہ ہزار دہم دیے گئے۔ ابو الفضل نے آئین اکبری میں بھی چکوال کا تذکرہ کیا ہے۔ آئین اکبری کی رو سے پرگنہ دھن ملوکی پر گکھڑوں کا قبضہ تھا۔ اُن کے ایک سردار جبار قلی خان نے وڈا پنڈ(جبیرپور) آباد کیا تھا۔ ان کا قبضہ بہادر شاہ ابن اور رنگزیب عالمگیر کے عہد تک رہا۔

           آئین اکبری میں تلہ گنگ کو اعوان محل لکھا گیا ہے۔جہانگیر کے عہد میں اس علاقے میں مغلوں کی آمد و رفت کے بہت کم شواہد موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں کو کلرکہار اور چوآسیدن شاہ کے گلاب پسند تھے وہ ان گلابوں کا عطر لینے خود آیا کرتی یا منگواتی تھی۔(یاد رہے کہ گلاب کا عرق اور عطر بھی پہلی بار نور جہاں نے بنایا تھا)غیر مصدقہ روایت یہ بھی ہے کہ جہانگیر کی ایک بیوی کو کوڑھ کا علاج مرید کے باوا شاہ علی محمدؒ نے کیا تھا۔ شاہ جہان کے عہد من چک مصری کے نزدیک پہاڑ کا پتھ تاج محل آگرہ محل میں استعمال ہوتا رہا جبکہ مغل عمارات میں استعمال ہونے والا چونا ڈنڈوت کے پہاڑوں کا تھا۔ مغل دربار میں اکثر شہزادیاں گلاب اور عطر چوآسیدن شاہ کے باغات سے منگواتی تھیں۔

       اورنگزیب عالمگیر اپنے عہد کے دوران یاں آیا اور تخت بابری پر نماز ادا کی تھی۔ اورنگزیب کے عہد میں بھی کالی داس کے لواحقین کو سات سو روپیہ کی رقم ادا کرنے کی سند موجود ہے یہ رقم محمد شریف(نومسلم) ولد بھگوتی داس قوم گڈھوک کو ادا کی گئی۔ عہد عالمگیری میں بھون کے قاضی حسام الدین سرکاری قاضی رہے تھے۔ انہیں اورنگزیب عالمگیر نے موضع بھلہ کریالہ کے قریب گاﺅں موہڑہ قاضیاں بطور جاگیر دے رکھا تھا۔۔ اورنگزیب کے بیٹوں میں خانہ جنگی کے بعد شہزادہ معظم نے 1707ءتا1712ءمیں گکھڑوں کے سید و خان کو اس علاقے سے بے دخل کر کے اقوام مائر اور کسر کے سردارون کو یہ علاقہ دے دیا تھا۔محد شاہ رنگیلا ور شاہ عالم ثانی(1719ءتا1749ئ) کے عہد میں بھی دھن ملوکی کے علاقوں کا ذکر ہے۔

          عہد مغلیہ کی اہم شخصیات

        کلر کہار کے بانی کالی داس ملوٹ سے ہجرت کر کے کلر کہار آئے تھے اور بابر نے انہیں خدمات کے عوض انعام و اکرام سے نوازا۔ انہوں نے علاقہ دھن آباد کیا۔ باغ صفااور دیگر علاقے کی دیکھ بھال بھی انہی کے خاندان کے ذمہ تھی۔مختلف اسنا دسے اورنگزیب کے عہد تک شاہی خاندان سے ان کے رابطے کا ذکر ملتا ہے۔ کالی داس کے خاندان سے شیخ محمد صالح قانون گو پہلے شخص تھے جو عہد عالمگیری میں مسلمان ہوئے۔ کالی داس کی مڑھی اب بھی کلر کہار میں موجود ہے۔ ان کا درست سن وفات معلوم نہیں ہو سکاہے۔ انہیں بابرنے سات مواضعات بھی دیے تھے۔

        جنجوعہ سردار ملک ہست خان ملوٹ بابر کی آمد کے وقت علاقے کے حاکم تھے بقول بابر وہ اس وقت بائیس تیئس سال کے تھے۔ ملک ہست خان نے بابر کی آﺅ بھگت کی اور کلر کہار حاضری دی۔ بابر نے خوش ہو کر انہیں سلطان کا خطاب دیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ موجود تخت بابری ملک ہست خان نے اپنے لیے ہی بنوا رکھا تھا۔ عہد مغلیہ تک نمک کی کانیں بھی جنجوعہ سرداروں کی ذاتی ملکیت تھیں۔

      قاضی حسام الدین آف بھون کو 1623ءمیں اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں سرکاری قاضی کا عہد دیا گیا اور بادشاہ نے انہین موہرہ قاضیاں کا موجودہ گاﺅں بھی بطور جاگیر عطا کیا تھا۔

        گڈھوک خاندان کے شیخ محمد اسلم مغلیہ عہد میں شاہی فرامین اور مکتوبات لکھتے تھے۔ وہ ہمہ وقت بادشاہ کے ہمراہ رہتے انہیں خوشنویسی پر عبور حاصل تھا۔ ان کی اولاد اب بھی موضہ کھوکھر میں آباد ہے۔

 شاہ مراد خان پوری نے اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں دوران1627ءمیں وفات پائی۔ وہ صوفی شاعر تھے اور اردو ، فارسی ،پنجابی میں کلام لکھتے تھے وہ ولی دکنی سے پچاس برس قبل فوت ہوئے اس لیے انہیں اردو غزل کا بانی کہا جاتا ہے۔

 ظہیر الدین بابر نے میراں بخش آف علی پور داخلی تھر چک کو نمبر داری کی باقاعدہ سند عطا کی تھی اور اُن کے خاندان کو ”قاضی“ کا لقب دیا تھا۔

         عہد مغلیہ کی عمارتیں

      کالی داس کی مڑھی

      کالی داس کی مڑھی غالباً چکوال میں واحد عمارت ہے جسکی تعمیر کے لیے مغلوں نے رقم فراہم کی ہوگی۔ 1526ءمیں بابر یہاں آیا تو کالی داس سے ملاقات کی۔ ہمایوں اکبر ، اور اورنگزیب کے عہد میں بھی کالی داس کے خاندان سے مغلوں کا رابطہ تھا اور وہ اُسے رقم بھیجتے تھے۔اس مڑھی کو لوگوںنے خزانے تلاش کرنے کی کوشش میں تباہ کر دیا ہے۔

شاہی مسجد کچھیاں

 چکوال کی قدیم ترین مسجد جامع مسجد کھچیاں کو کہا جاتا ہے۔اسے مغلیہ عہد میں عازی اسد خان عالمگیر نے تعمیر کرایا تھا اور اس کا سن تعمیر 1141ھ1728ءمین بتایا جاتا ہے۔ بعد ازاں غالباً 1897ھ یا1997ءمیں اسکی تجدید و مرمت کی گئی۔

پکی مسجد چکوال

    اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں(1656ئ- 1606ئ) میں باوا گدا بیگ مائر منہاس نے قاضی حافظ فتح پورؒ کے ساتھ مل کر چکوال شہر مین سب سے پہلی مسجد بنائی جو ابھی تک پکی مسجد کے نام سے قائم ہے۔

جامع مسجد دیوالیاں

      دیوالیاں کی جامع مسجد کو 1772ءمیں تعمیر کیا گیا۔مغل حکمرانوں نے یہاں براہِ راست کوئی تعمیر نہیں کرائیں اور نہ ہی قلعے وغیرہ بنائے چنانچہ اُن کے عہد میں بننے والی عمارات کی تفصیل دی گئی ہے۔ممکن ہے ایسے تاریخی عمارات باقی ہوں جن کے بارے ابھی تحقیق ہونا باقی ہے۔ چکوال کی بیشتر تاریخی عمارات مغل دور سے بہت پہلے کی ہیں۔

"محمد لقمان مانی پوریا"

تصاویر۔۔۔۔۔۔علی خان












 

Comments

Post a Comment

Thanks Dear ,