ہم بحیثیت قوم گر چکے ہیں اس اشتہار سے اندازہ لگا لیں


 آپ بس کچھ دیر کیلئے اس اشتہار کی سوچ اور زبان چیک کر لیں. ان کو بس ہوسٹس چاہئے یا کوئی ماڈل.؟  کمپنی کو غیر شادی شدہ کم عمر خوش شکل لڑکیاں چاہئیں. لالچ کیا ہے؟


 کھانا پینا فری اور تنخواہ.


ریمپ پر واک کرتی ماڈلز کی ایوریج سیلری 70 ہزار تک ہوتی ہے. ان کو کم از کم سیٹوں سے کندھے نکال کر بیٹھی مرد سواریوں کے درمیان سے نہیں گزرنا پڑتا. ان کو کسی اڈے کے کچھ دیر کے مسافروں کی نظروں کا تختہ مشق نہیں بننا پڑتا. لیکن ہم لوگ اسے برا سمجھتے ہیں جبکہ ایک خوش شکل غریب لڑکی کی نمائش کرنے والی بس کو پسند کرتے ہیں.


اگر ہم اسے پسند نہ کرتے تو کس کمپنی میں یہ ہمت ہوتی کہ ایسا اشتہار لگاتی.؟ کس گھر میں مرد کام کرے یا عورت، یہ اس گھر اور اس کے مکینوں کی مجبوریاں طے کرتی ہے. لیکن اس مجبوری کو جائز مقام دینا یا ناجائز فائدہ حاصل کرنا معاشرے کا چہرہ طے کرتا ہے. معاشرے کو عورت کے کام پر اعتراض ہے تو پھر اسے گھر بٹھا کر کھلانے کا بندوبست کرے. لیکن اگر معاشرہ یہ نہیں کر سکتا تو کم از کم کمزور درجے میں عورت کی نسوانیت کا تحفظ کرنا تو سیکھ لے. اسے تماشا تو نہ بنائے.


کمپنی بس ہوسٹس کا اشتہار بناتی. مرد یا عورت جو بھی ہوتا اپنی ضرورت پر رجوع کرتا. لیکن انہوں نے اپنی شرائط سے بتایا ان کو ہوسٹ نہیں ایک تماشا لگانے کا مجبور کردار چاہئے. لعنت ہے ایسی سوچ پر.


ریاض علی خٹک

Comments

  1. اس اشتہار دینے والے کی اپنی بیٹیاں بھی تو ہوں گی ان کو ساتھ رکھے تو تنخواہ گھر میں ہی رہ جۓ گی

    ReplyDelete

Post a Comment

Thanks Dear ,