گاوں کا سیپی والا نائی ثقافتی رنگوں میں رنگا ہمارا پنجاب

گاوں کا سیپی والا نائی ثقافتی رنگوں میں رنگا ہمارا پنجاب


گاوُں کا نائی ۔۔اچھی گزر گئی سے ایک بے حد پسند کیا جانے والا انتخاب۔
۔
نائی
ویسے تو کسی بھی جگہ نائی یعنی حجام کا پایا جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے لیکن گاؤں کے نائی کی تو اپنی ہی بات ہے۔ اس کو بیک وقت کئی کام نپٹانے پڑتے تھے۔ عام حالات میں وہ گلے میں ایک بیگ لٹکائے اور ہاتھ میں ایک ننھا سا حمام اٹھائے کھیتوں اور ڈیروں میں پھرتا رہتا تھا۔




 بیگ میں ایک دو زنگ آلود استرے، قینچیاں، ایک ٹوٹے ہوئے دندانوں والا میلا سا کنگھا ہوتا تھا۔ سب سے زبردست چیز اس کی بال کاٹنے والی مشین ہوتی تھی جس کا سپرنگ کثرت استعمال سے دا غ مفارقت دے چکا ہوتا تھا



، اس لیے بال کاٹتے وقت اس کے دستوں کو مالی کی قینچی کی طرح دونوں ہاتھوں سے چلانا پڑتا تھا۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ اگر دونوں ہاتھ وہاں مصروف ہوجاتے تو سر کو کون اپنی جگہ قائم رکھتا۔ بڑا بندہ تو سر اکڑا کر اس کی یہ مشکل حل کر دیتا تھا، لیکن مسئلہ بچوں کا تھا وہ مداری کے روٹھے ہوئے



 بندر کی طرح مسلسل گردن اِدھر اُدھر ہلاتے رہتے جس سے اسکا نشانہ چوک جاتاتھا اور ضروری بال بھی غائب ہو جاتے جو اسکی سبکی اور بسا اوقات بے عزتی کا باعث بنتے ۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا تھا کہ وہ ان کا سر پکڑ کر اپنے گھٹنوں میں دبا لیتا اور جیسے تیسے کر کے بال مو نڈھ ہی دیتا تھا جس کو وہ اپنی زبان میں حجامت کہتا تھا




۔ اس دوران رو رو کر بچوں کو دندل پڑ جاتی۔
گاؤں کے لوگ دس پندرہ روز بعد ہی داڑھی منڈھواتے تھے۔ جس کو ضرورت ہوتی تو وہ اسے آواز دے کر بُلا لیتا تھا ۔ نائی کے پاس صابن اور برش نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔



 وہ اپنے ننھے حمام سے، جس کے نیچے اس نے دو تین دہکتے ہوئے کوئلے رکھے ہوتے تھے، چُلّو بھر گرم پانی لیتا، اور اپنے شکار کی داڑھی پر چھڑک کر اس کا چہرہ پانچوں انگلیوں سے ایسے رگڑنا شروع کردیتا جیسے  اس پر مسلسل ''لکھ دی لعنت '' بھیج رہا ہو ، اور پھر وہ رگڑے ہی چلا جاتا۔اس دوران وہ دونوں حقہ نوشی کرتے اور گپیں لگاتے رہتے تھے۔



پھر جب اس کو یاد آتا کہ اگلا قدم بھی اٹھانا ہے تو وہ بیگ میں سے استرا نکال کر کوئی پانچ منٹ تک پتھری پر رگڑتا رہتا پھر اس کی دھار پر ہاتھ پھیر کر مطمئن ہو جاتا اور اپنا کام شروع کر دیتا کھڑڑ کھڑڑ کی آواز دور تک پھیل جاتی۔ 



اس دوران کبھی ہائے اور کبھی گالیوں کی آوازیں آتی رہتی تھیں، کبھی ٹک لگ جاتااور تھوڑا بہت خون نکلتا تو وہ اگلی گالی آنے سے قبل ہی فٹا فٹ بیگ میں سے پھٹکری نکال کر متاثرہ جگہ پر مل دیتا۔وہ تو اپنا کر کے چلا جاتا لیکن متاثرّہ فریق بڑی دیر تک حیرت سے منہ پر ہاتھ پھیر پھیر کر اپنے آپ کو یقین دلاتا رہتا



 کہ کیا واقعی ہی اس کا کام تمام ہو گیا ہے۔ایسا ہی خالی خالی سا لگتا تھا اسے اپنا چہرہ




تحریر گزار : محمد لقمان مانی پوریا

Comments